بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ادیان و مذاہب یونیورسٹی کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے مملکتِ تھائی لینڈ کے سفر کے دوران جولالونگکورن ویتایالای (مچر) یونیورسٹی میں اساتید اور ذمہ داران سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس ملاقات کے آغاز میں پراجراوات ووتایانو نے بطور نمائندہ یونیورسٹی شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اجلاس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا: اس نشست کا مقصد ایران اور تھائی لینڈ کے علمی و دینی اداروں کے درمیان رابطے کا پل قائم کرنا ہے تاکہ گفتگو، تجربات کے تبادلے اور مشترکہ تعاون کے فروغ کی راہ ہموار ہو۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان مذاکرات کے نتائج کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے، خاص طور پر تعلیمی، تحقیقی اور ثقافتی میدانوں میں تعاون کے معاہدوں کی صورت میں۔
اس کے بعد، دکتر پرا باندیت سوتیرات، نائب صدر یونیورسٹی نے ایرانی وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: جولالونگکورن ویتایالای (مچر) یونیورسٹی اس سے پہلے بھی ایران کے علمی اداروں کے ساتھ تعاون کر چکی ہے اور ہمیشہ ایرانی اساتید اور دانشوروں کی میزبانی کو خوش آئند سمجھا ہے۔
انہوں نے کہا: یہ یونیورسٹی ایران کے علمی، ثقافتی اور دینی مراکز کے ساتھ تعاون کے دروازے کھول چکی ہے اور پوری طرح آمادہ ہے کہ مستقبل قریب میں استاد و طلبہ کے تبادلے، کانفرنسوں کے انعقاد اور مشترکہ علمی تحقیقات جیسے منصوبوں پر کام کرے۔
دکتر پرا باندیت سوتیرات نے مزید کہا: مچر اور ایران کی یونیورسٹیوں کے درمیان رسمی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے لیے راستہ ہموار کرنا اور ان معاہدوں کا انعقاد دینی علم کے فروغ، تعلیمی تعاون کی توسیع اور عالمی امن کی ثقافت کے فروغ کے لیے نئی بنیاد فراہم کرے گا کیونکہ یہ تعاون دونوں ملکوں کے درمیان علمی، ثقافتی اور دینی ڈپلومیسی کے شعبوں میں اسٹریٹجک تعلقات کی اساس ہے۔
ادیان و مذاہب یونیورسٹی کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے اس یونیورسٹی کی میزبانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معاشرتی اور عالمی سطح پر دین کے کردار کو بحال کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا: ایسے وقت میں جب انسانی معاشرہ اخلاقی، سماجی اور ماحولیاتی بحرانوں کا سامنا ہے، مختلف مذاہب اپنی مشترکہ اقدار کے ذریعے عالمی امن اور انصاف کے حصول کے لیے ایک نیا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام اور بدھ مت کی تعلیمات میں بہت سی مشترکہ باتیں ہیں اور یہ علمی، ثقافتی اور مذہبی تعاون کے لیے ایک بہت بڑی صلاحیت ہے۔
آپ کا تبصرہ